Tuesday, September 17, 2019

1950 کا زمانہ ہے اور چارسدہ کا علاقہ..پکی سڑک سے دائیں طرف کهیتوں میں تنگ سے رستے پر کوئی پانچ منٹ چلیں تو سامنے ہ

1950 کا زمانہ ہے اور چارسدہ کا علاقہ..پکی سڑک سے دائیں طرف کهیتوں میں تنگ سے رستے پر کوئی پانچ منٹ چلیں تو سامنے ہی کچے پکے مکانات کا سلسلہ شروع ہوتا ہے...یہ جگہ پائندہ خیل کے نام سے جانی جاتی ہے یہاں گاون کے سید اور "میاگان" آباد ہیں..ان ہی گهروں کے بیچ ایک بڑا سا قلعہ نما چاردیواری والا گهر نظر آتا ہے جس میں ہلکے نیلے رنگ کا لکڑی کا بڑا سا دروازہ نصب ہے...دروازے سے اندر جائیں تو ایک کشادہ کچا صحن نظر آتا ہے جس میں ابهی ابهی پانی ڈال کر تر کیا گیا ہے سامنے ہی برآمدہ ہے جس میں قطار سے پانچ کمرے بنے ہوئے ہیں .. عصر کا وقت ہورہا ہے.. سرخ سفید رنگت کی حامل قدرے لمبی ناک والی صحتمند سی تقریبا" ستر سالہ مشرہ بی بی(بڑی بی بی) برآمدے میں دهرے تخت پر نماز پڑه رہی ہیں..پاس بچهی چارپائی پر پانچ چه چهوٹی لڑکیاں سیپارے پکڑے سبق یاد کر رہی ہیں ....مشرہ بی بی سلام پهیر کر آواز دیتی ہیں "یا فرخندے"...اور دعا میں مشغول ہوجاتی ہیں... فرخندہ کہیں نظر نہیں آتی.. "فرخندے اے فرخندے" اب مشرہ بے بے قدرے بلند آواز میں پکارتی ہیں... برآمدے سے نیچے دائیں طرف بنے باورچی خانہ کے دروازے میں پسینے سے شرابور سرخ سفید خوبصورت لڑکی نمودار ہوتی ہے.."جی بے بے" "دلتہ راشہ(ادهر آو)" مشرہ بی بی کے کہنے پر فرخندہ ان کے سامنے آ کهڑی ہوتی ہے.."ناوے سہ شوا(دلہن کہاں گئی؟)" بے بے فرخندہ کی ماں کے بارے میں سوال کرتی ہے.."مور(ماں) داجی کے ساته شیر افضل ماموں کے ہاں گئی ہیں..ان کی طبیعت اچانک خراب ہوگئی تهی ...آپ سو رہی تهیں تو جگانا مناسب نا سمجها" فرخندہ دادی کو جواب دے کر بچیوں کو سیپارہ پڑهانے لگ جاتی ہے..."میں جا کر گڑ کا شربت بنا لاوں بڑی گرمی پڑ رہی ہے"کچه دیر بعد بے بے تخت سے اترنے لگتی ہیںفرخندہ جلدی سے اٹه کهڑی ہوتی ہے "ارے نہیں بےبے آپ بیٹهو میں بنالاتی ہوں""نا تو کہاںخوار ہوگی تو ان بچیوں کو پڑها کر فارغ کر""نہیں بے بے ان کو میں نے سبق دے دیا ہے باقی گهر جا کر دہرا لینگی "فرخندہ بچیوں کی طرف مڑتی ہے " چلو آپ لوگ اب گهر جاو سبق اچهے سے یاد کرنا اور کل وقت پر آجانا! آپ بیٹهو بے بے میں بنا لاتی ہوں" فرخندہ قدرے دوڑتے ہوئے کچن کی طرف جاتی ہے..دروازے میں سرخ سفید سید سفی اللہ نمودار ہوتے ہیں ان کے پیچهے پیچهے ٹوپی کا برقع پہنے بڑی بڑی آنکهوں والی گندمی رنگت کی رفعت ہانپتی کانپتی چلی آرہی ہیں صحن میں زرا سا رک کر برقع اتار کر صحن میں ہی تار پر لٹکا کر برقع کے نیچے پہنے دوپپٹہ سر پر لیتیں برآدمدے کی طرف آتی ہیں"اسلام و علیکم بے بے" رفعت شوہر کے سامنے ہی چارپائی پر بیٹه جاتی ہیں.."وعلیکم اسلام ! فرخندے یا فرخندے راشہ مور پلار لہ دے شربت روڑہ!" بے بے گل فروشے کو صدا لگاتی ہیں.."کیسا تها شیر افضل" بےبے اب کے سفی اللہ کی طرف مڑیں.."رات سے سینے میں تکلیف محسوس کر رہا تها اب بہتر ہے...بی بی وہ شادی کرنا چاہ رہے ہیں ...اور میرا بهی خیال ہے اب شادی کرلینی چاہیئے خیر سے فرخندہ انیس سال کی ہوگئی ہے" سفی اللہ سر سے ٹوپی اتار کر پیچهے دیوار کے ساته ٹیک لگاتے ہیں..جوابا" رفعت ناک سکوڑ کر ناگواری سے کہتی ہیں "ہاں تو دیر بهی تو ان کے اپنے طرف سے ہی تهی.. ورنہ کسے شوق ہے جوان بیٹی کو گهر میں بٹهانے کا" (ہاته کا پنکها جهلنے میں تیزی)اتنے میں فرخندہ ہاته میں شربت پکڑے آتی ہے"اسلام و علیکم " "وعلیکم اسلام " سفی اللہ سیدهے ہو کر شربت کا گلاس پکڑتے ہیں.."چلو کوئی بات نہیں نصیب کی بات ہے ...سفی اللہ ان سے کہو ہم لوگ تیار ہیں شادی کی تاریخ رکهنے آجائیں" بےبے کہتی ہیں...فرخندہ شرما کر جلدی سے اندر کمرے کی طرف چلی جاتی ہے..اس گهر کے بائیں طرف دس منٹ کے فاصلے پر ایک بڑی سی نہر ہے..جس پر لکڑی کا پل بانده کر آنے جانے والون کیلیئے رستہ بنایا گیا ہے ..نہر کے اس طرف زیادہ تر ہندو گهرانے ہی آباد ہیں اور مسلمان گهرانے اکا دکا ہی نظر آتے ہیں... ان ہی گهروں میں سے ایک گهر مرزا غالب عرف جواری کا ہے... جو کسی زمانے میں زمین جائداد کا مالک ہوا کرتا تها مگر جوا کهیلنے کی وجہ سے سب کچه بیچ چکا ہے..اور اب اسکا بیٹا یوسف بهی باپ کے نقش قدم پر چل رہا ہے..مرزا غالب کا دو مرلے کا کچا گهر دو کمروں اور صحن پر مشتمل ہے.. مرزا غالب کی بیٹی گل فروشہ کچی دیوار سے ٹیک لگائے آنکهیں بند کیئے بیٹهی ہے..غلام مصطفی درانی کا گانا "مین پہ تا یم اے نازنینہ" پاس ہی رکهے گراموفون پر بج رہا ہے جو اس کا باپ جوے میں جیتا تها..بصری کمرے سے باہر نکل کر گل فروشہ کے سامنے آکهڑی ہوتی ہے.. "گل فروشہ" بصری ہلکی آواز میں پکارتی ہے..جواب نا ملنے پر وہ گراموفون بند کردیتی ہے مگر گل فروشہ کوئی حرکت نہی کرتی... "لگتا ہے خوب گہری نیند سوگئی ہے" بصرئ دل ہی دل میں سوچ کر مسکراتے ہوئے دبے پاوں آگے بڑهتی ہے..آہستہ سے گل فروشہ کے پاس بیٹه کر ہاته میں پکڑی سوئی نکال کر گل فروشہ کے ناک میں چبهو دیتی ہے...گل فروشہ درد سے چیخ اٹهتی ہے "وائی مورے(ہائے ماں).." ہاته مت لگانا گل فروشے ہاته مت لگانا ناک کو ہاته مت لگانا.. بس مجهے سوئی اندر کی طرف سے نکال لینے دو" بصری گل فروشے کے دونوں ہاته مضبوطی سے پکڑ لیتی ہے.."نہیں چهدوانی مجهے ناک چهوڑو مجهے " گل فروشہ روتے ہوئے چلاتی ہے.."بس تهوڑا درد اور پهر درد نہی ہوگا گل فروشہ مجهے سوئی نکال لینے دو""تو کیوں چبهوئی میری ناک میں سوئی میں داجی کو بتاونگی ..مور زندہ ہوتی تو تمہاری یہ ہمت نا ہوتی میں تو تمہارے رحم و کرم پر ہوں نا" گل فروشہ کی چیخوں میں اضافہ ہوجاتا ہے.."نہیں میری پیاری بہن داجی کو نا بتانا" بصری ہاتهوں کی گرفت کچه کم کرتی ہے" اب کہ میں مشرہ بےبے کے گهر جاونگی نا تو تمہیں بهی ساته لے جاونگی..وہ دم کردینگی پهر تمہیں درد بهی نہیں ہوگی"...گل فروشہ آنکهیں بند کرلیتی ہے "نکالو اسے"..بصری آہستہ سے سوئی ناک کے اندر سے نکال کر دهاگے کو منہ سے کاٹتی ہے "اف میرے خدا! مجهے درد ہورہی ہے بصری" گل فروشہ دانت ہونٹوں میں گاڑ کر بے سده سی دیوار سے دوبارہ ٹیک لگا لیتی ہے..
💜💜💜💜💜💜💜💜💜💜💜
"دکه ہوتا ہے مجهے" ٹوپی کا برقع پہنے بصری کے پیچهے چلتے چلتے گل فروشہ ایک دم رکی.."کس بات کا؟"بصری نے دوده سے بهرا سٹیل کا لوٹا دائیں سے بائیں ہاته میں منتقل کرتے ہوئے پوچها.."نام دیکهو میرا گل فروشہ یعنی پهول بیچنے والی اور بیچتی کیا ہوں ؟ دوده " زمانے بهر کی خفگی اس کے سانولے مگر پرکشش چہرے پر آٹہری تهی.."یہ تو اللہ کی تقسیم ہے اور پهر دوده بیچنے میں کیا برائی ہے" بصرئ پهر سے چلنے لگی..گل فروشہ نے چہرے سے برقع ہٹایا ..تیز دهوپ میں چراغوں سی دو آنکهیں جل اٹهیں "داجی جوا نا کهیلتے نا تو آج ہم بهی نواب ہوتے ""بکو مت..اور نیچے کرو یہ برقع شرم حیا ہے کہ نہی..رستہ ہے گهر نہی ہے" بصری نے غصے سے اسکا برقع نیچے کیا.."بصری!" کچه دیر خاموش رہنے کے بعد گل فروش پهر سے گویا ہوئی "مجهے اب داجی اچهے نہیں لگتے..نا داجی جوا کهیلتے نا مور کو غم لگتا ...نا مور مرتی نا ہمارا متاع بکتا..اور نصیب دیکهو بهائی بهی اسی جیسا" وہ دونوں اب پل کے اوپر پہنچ گئی تهیں..نہر آہستگی سے رواں دواں تها.."ایسے نہیں کہتے گل فروشے! وہ ہمارے باپ ہیں کم از کم ہمیں بهوکا تو نہی رکهتے نا ..اور یہ سب تو نصیب کے بات ہے" بصری پل کے اوپر زرا سا رکی تهی

گل فروشے نے ایک ٹهوکر سے پل پر پڑا پتهر نہر میں پهینکا تها.."ہم ہی کیوں..جانتی ہو کل نندنی نے مجهے کیا کہا تها؟کہہ رہی تهی تمہارا باپ کسی دن تمہیں بهی بیچ دیگا"
"تمہیں میں نے کتنی دفعہ کہا ہے دور رہو اس ہندوانی سے.. آئیندہ مجهے تمہارے ساته نظر آئی تو دونوں کو اسی نہر میں پهینک دونگی..نہیں بلکہ داجی کو بتادونگی" بصری کو غصہ آیا تها..
"ہاں تو بتادو..وہ میری دوست ہے اور ہمیشہ رہیگی"..گل فروشہ ناگواری سے آگے بڑهی تهی
💜💜💜💜💜💜💜💜💜
To be continued
Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...